جہاں کوئی سرحدیں ہی نہ ہ ۔ایسا کرنا کوئی مشکل بھی نہیںکہ جہاں قتل کرنے یا مرنے کے لئے کچھ وجہ نہ ہو
اب بات مقدر کو بدلنے کی چلے گی ۔اس چلتی ہوئی بات کی ہو چال مبارک بعد از نیا ملک، نیا سال مبارک
پھٹ رہے ہیں روز دل، ٹوٹتے ہیں روز خواب
ہو رہا ہے صبر کم، بڑھ رہا ہے اضطراب
پھاڑ دے گی نسلِ نو ظلم کے سبھی نصاب
سب فقیہہ، سب امام ہو رہیں گے بے نقاب
لوگ پابند سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں ۔بے حسی چھائی ہے ایسی گھر کے گھر خاموش ہیں ۔ دیکھتے ہیں ایک دوجے کو تماشے کی طرح ۔ان پہ کرتی ہی نہیں آہیں اثر خاموش ہیں
فلک خود زمیں میں دھنسا کیوں نہیں ہے .زمیں پر زمانہ رکا کیوں نہیں ہے .اگر ہے غفور و مغنی تو اب تک .خدا کا کلیجہ پھٹا کیوں نہیں ہے .وہ سچا صحیفہ، وہ قرآن لا دو .مجھے میری زینب کی مسکان لا دو
۔کتنے بے درد ہیں ،، صَرصَر کو صبا کہتے ہیں۔کیسے ظالم ہیں ، کہ ظُلمت کو ضیا کہتے ہیںجبر کو میرے ،،، گناہوں کی سزا کہتے ہیںمیری مجبوری کو، تسلیم و رضا کہتے ہیں
لہو سجا کے کھلا ہے گلابِ اکتوبر۔مرا سلام، تجھے انقلاب اکتوبر ۔سلام، پرچم اِسونی، سلام تجھے
دیر تک مخملی بستر پر بے قرار کروٹیں لینے کے بعدوہ ایک گونج دار چینخ کے ساتھ ایک دم اٹھ بیٹھی۔یہ وہی خواب تھا جو کئی ماہ سے اس کی نیندوں میں خلل ڈال رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے کلاک پر پڑی تو وہ
پندرھویں صدی کے اواخر میں جرمنی کے بہت سے نجومی اور جادو گر اپنے لئے ’فاسٹس ‘کا لفظ اختیار کرتے تھے ۔یہ لفظ لاطینی الاصل ہے جس کے معنی ’برگزیدہ ‘یا ’مبارک‘ کے ہیں۔اس قصے کی پہلی فنکارانہ پیش کش ایک انگریز ڈراما نگار کرسٹو فر مارلو نے کی۔ اس نے اسے اپنے مشہور المیے(ڈرامے) ’ڈاکٹر فاسٹس کی داستانِ الم‘ کا موضوع بنایا
ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے جب سکھ کا ساگر چھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا جب دھرتی نغمے گائے گی
گنوار لوگو! تمہیں بتایا گیا تھا لالچ بری بلا ہے
تمہاری آنکھوں میں وہ ہوسناک خواب ہیں جو
زمین کی نعمتوں کی تقسیم و قدر کے واسطے ہیں خطرہ
تمہارا کیا ہے؟ تمہاری نسلیں ہمارے طے کردہ
روز و شب میں، ہماری خیرات پر پلی ہیں